اگر کوئی صاحب مجھ سے پوچھیں کہ آپ کی نظر میں زندگی کیا ہے؟ اور اس پوچھے گئے سوال کے جواب میں اگر میں کہوں کہ ’جنم لینا، جوانی کے چند شاندار برس گزارنا اور بوڑھا ہوکر مرجانا، بس اور کیا ہے؟‘ تو میرے کئی غلط جوابوں میں سے ایک یہ بھی غلط جواب ہی ہوگا۔
میں اس جواب سے اپنے اطراف میں پھیلی ہوئی ایک وسیع دنیا کو نظر انداز کر رہا ہوں۔ میں فطرت کی خوبصورتی، لوگوں کے ذہنوں کا بنا ہوا وہ شاہکار ادب نظر انداز کررہا ہوں جس میں ان کی تمنائیں اور ان کے ارتقائی ڈر اور خوف بستے ہیں۔
میں گزرے زمانوں کے ان مقامات کو بھی یقیناً بھول رہا ہوں جن کے وجود میں ہزاروں برسوں کی تاریخ ایک جادوئی سحر کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ اگر ہم ان گزرے وقتوں سے اپنا رشتہ نہیں رکھیں گے تو کل جب یہ آپ کا انتظار کرکے تھک جائیں گے اور جب یہ آپ سے اپنا رشتہ توڑ لیں گے تب بڑی مشکل ہوگی کہ ایک درخت تب ہی شاندار رہتا ہے جب اس کے وجود سے گھنی اور ہری ڈالیاں اگتی ہیں۔ جب وہ نہیں اگیں گی تو ٹنڈ منڈ درخت رہ جاتا ہے جس پر 2 پل کوا بھی بیٹھنے کا نہیں سوچتا اور یقیناً میں کبھی بھی ٹنڈ منڈ درخت بننا نہیں چاہوں گا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی سینما کا طوطی بولتا تھا۔ عید کے موقع پر 3، 4 اردو، 2، 3 پنجابی اور 2، 3 پشتو فلمیں نمائش کے لیے لگتی تھیں۔ ہم شرطیں لگاتے کہ فلاں فلم کو مرکزی سینما اچھا نہیں ملا ہے، یہ سلور جوبلی بھی نہیں کرسکے گی، البتہ اس فلم میں گولڈن جوبلی کی امید ہے۔ پھر فلم کو ملے سینما کی گنتی شروع ہوتی کہ اس کو 17 سینما ملے ہیں اور اس کو 11۔ یعنی یہ ایک شاندار مشغلہ ہوتا تھا۔
یہ وہ دن تھے جب ’جنگ‘ اخبار میں روز کی بنیاد پر ایک صفحہ سینماؤں پر ہوتا اور ہفتہ وار فلمی اخبار بھی نکلتے تھے۔ ہم عید کے دوسرے دن کھوکھرا پار کے لیے نکل پڑتے جہاں ہمارے رشتہ دار رہتے ہیں۔ فلمیں دیکھنے کا ایک جنون ہوتا تھا، اگر میٹنی شو ’افشاں‘ سینما میں دیکھا تو شام والا ’نشیمن‘ میں اور پھر گھومتے گھامتے 11، 12 بجے ایمپریس مارکیٹ سے آخری بس میں بیٹھتے اور بس کے آخری اسٹاپ کھوکھرا پار آجاتے۔ اگر رشتہ داروں کی عید کی دعوتوں سے آنا کانی نہ کرسکتے تو اس دن صدر جانا نہیں ہوتا تھا۔ شام کو ملیر کالونی چلے جاتے، جہاں ’نفیس‘، ’شبانہ‘ یا ’کیسینو‘ سینما میں فلم کا آخری شو دیکھ کر لوٹتے۔
اس زمانے میں میرے پاس 110 کیمرا ہوا کرتا تھا۔ اس میں کیسٹ کی طرح رول لوڈ ہوتا تھا۔ اس کیمرے کا رزلٹ کوئی اچھا نہیں تھا مگر کیمرا تو تھا۔ میں ان دنوں اپنے دوستوں کے ساتھ منگھوپیر گیا تھا۔ لی مارکیٹ سے ایک خستہ سی بس میں بیٹھے تھے اور نکل پڑے تھے۔ بس اتنا یاد پڑتا ہے کہ راستے کے دونوں اطراف کوئی اتنی آبادی نہیں تھی۔ جب منگھوپیر کی درگاہ پر پہنچے تھے تو ایک ویران سی جگہ کا احساس ہوا تھا۔ دیوی کی جھاڑیاں، کھجور کے کچھ درخت اور خاموشی کا تصور ابھی تک میرے ذہن میں ہے۔ میں 18، 19 برس کا دھان پان سا لڑکا تھا اور اب میں 41 سال بعد منگھوپیر جارہا ہوں تو 60 برس کا بڈھا ہوں۔ وقت وقت کو کھا جاتا ہے، بس فقط تصور ہی ان سے مُبرا ہوتے ہیں اور ہمیشہ جوان رہتے ہیں۔
میں منگھوپیر کے قریب شمال میں پہاڑی پر کھڑا ہوں۔ میرے ساتھ آیا ہوا میرا ساتھی اقبال کھتری فوٹوگرافی میں مصروف ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ 40 برس پہلے والا مقام ہی ہے۔ دل نہیں مانتا تھا مگر حقیقت یہی ہے، جسے ماننا تو پڑے گا۔
اب خاموشی اور درختوں کے جھنڈ یہاں سے کب کے کوچ کرچکے ہیں۔ ساری پگڈنڈیاں ہواؤں میں کہیں گم ہوگئی ہیں۔ اب ان کی جگہ اینٹوں اور سیمنٹ نے لے لی ہے۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوا ہے جیسے ابھی طوفان نوح آنے والا ہے، جلدی کرو کہ دیر نہ ہو جائے۔
اتنی دھوپ نہیں ہے، دن ٹھنڈا ہے اس لیے میں پہاڑی پر بیٹھا ہوا ہوں۔ یہ وہ جگہ ہے جس کے متعلق بہت ساری کہانیاں آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ ان کے متعلق بہت ساری حقیقتیں ہیں جن کو ڈھونڈنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہاں سے کسی وقت میں حب ندی بہتی تھی، پھر چشمے ابل پڑے، کچھ محققوں کے مطابق یہاں سے بلوچستان اور ایران جانے کا قدیم راستہ بھی تھا، پھر مگرمچھوں کی شاندار کہانی بھی اس تالاب سے شروع ہوتی ہے جو کسی زمانے میں حب ندی کی بے وفائی کی وجہ سے یہاں رہ گئے اور اب تک اس ندی کے میٹھے پانی کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ بات رچرڈ برٹن نے کہی تھی کہ ’یہ مگرمچھ حب ندی کے بہاؤ چھوڑنے کی وجہ سے یہاں رہ گئے تھے‘۔
اگر آپ دریائے سندھ کے بہاؤ کے مغرب کی طرف کھیرتھر پہاڑیوں کے سلسلے کو دیکھیں گے تو سیہون شریف سے ابراہیم حیدری تک آپ کو ابلتے چشموں کا ایک سلسلہ نظر آئے گا جن میں سے کچھ میٹھے پانی کے ہیں اور کچھ گندھک ملے پانی کے۔ تاہم مگرمچھوں کی کہانیاں اور آثار ہمیں فقط کراچی کے اطراف میں ہی ملتے ہیں۔
اگر آپ کبھی ابراہیم حیدری سے سمندر کے کنارے والا راستہ لے کر ریڑھی میان کی طرف نکلیں تو ریڑھی سے پہلے آپ کو چشمہ گوٹھ ملے گا۔ یہاں گندھک ملے پانی کا چشمہ ہے۔ اس کو ایچ ٹی لیمبرک صاحب واگھو ڈر (مگرمچھ کے رہنے کا غار) کہتے ہیں۔ اس چھوٹی سی ریتیلی پہاڑی پر لیمبرک کو قدیم قلعے کے آثار بھی ملے تھے اور محترم گل حسن کلمتی کی تحقیق کے مطابق وہاں مگرمچھوں کی قبریں بھی ہیں۔ یہ سب حیران کن اس لیے نہیں ہے کہ ایک زمانے میں، بہت ساری طاقتور اور ڈراؤنی چیزوں کی پوجا ہوتی تھی۔ وادی سندھ کے قدیم مذہب میں مگرمچھوں کو دیوتا مان کر پوجا جاتا تھا۔ موہن جو دڑو کی کھدائی سے ایک مہر بھی ملی ہے جس میں مگرمچھ کو مچھلی کھاتے دکھایا گیا ہے۔
اس پہاڑی پر آثارِ قدیمہ والوں کو بالکل ایسی قدیم انسانی بستی کے آثار ملے ہیں جس کا زمانہ پتھر اور دھات کے درمیان کا یعنی کانسی کا زمانہ (3300 ہزار قبل مسیح سے 1200قبل مسیح تک) ہے۔ محققین کے مطابق، کسی زمانے میں یہاں بڑی جھیل یا تالاب ہوگا جس میں بہت سارے مگر مچھ ہوں گے۔ اس کے کنارے بسنے والی بستی کے لوگ ان مگرمچھوں کی پوجا کرتے تھے۔
History on tombstones: Sindh and Baluchistan کے مصنف تحریر کرتے ہیں کہ ’مسلم دور سے قبل، منگھوپیر کے تاریخی مقام پر لوگ اپنے متبرک مقام کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ وہ مگرمچھوں کی پوجا کرتے ہیں، جسے وہ ’لالہ جسراج‘ کا اوتار سمجھتے ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے اس مقام کی تاریخ کو کانسی کے زمانے سے بھی قدیم قرار
دیا ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب وادی سندھ کی تہذیب اپنے عروج پر تھی‘۔
میر علی شیر قانع اپنی مشہور تصنیف تحفہ الکرام (1767ء) میں لکھتے ہیں کہ ’یہ مشہور پہاڑ ہے۔ حاجی منگھا نامی بزرگ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کے ہمعصر یہاں مدفون ہیں اس لیے یہ پہاڑ ’طوق منگھ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ پہاڑ کے دامن میں ایک حوض ہے جس کے گرم پانی میں مگرمچھ رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک ’مور‘ (سردار) ہے۔ جس کے مرنے کے بعد دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ عقیدت مند لوگ نذرانے کے طور پر بھیڑ اور بچھڑوں کی قربانی کرتے ہیں جس کا پہلا ٹکڑا، مور کو دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اسے کھالیتا ہے تو وہ نذرانہ قبول سمجھا جاتا ہے ورنہ نہیں‘۔
اگر آپ قانع صاحب کی اس مختصر سی تحریر کا غور سے مطالعہ کریں گے تو اس تحریر میں آپ کو 2 کہانیاں نظر آئیں گی۔ ایک وہ جو حاجی منگھا کی ہے جس کے متعلق بہت سی روایات وابستہ ہیں۔ کچھ روایتوں کے مطابق 12ویں صدی میں منگھو بہت بڑا ڈاکو تھا مگر بابا فریدالدین گنج شکر (وفات 1266ء) کی نصیحت پر اس نے بُرے کام چھوڑ دیے اور اسلام قبول کرلیا اور ایک سچے صوفی کی طرح رہنے لگا۔ درگاہ پر ان بزرگ کی زندگی کے متعلق بورڈ لگا ہے۔ اس بورڈ کی تحریر کے مطابق ’آپ کا نام کمال الدین ہے۔ 13ویں صدی میں حجاز مقدس سے ہندوستان تشریف لائے، آپ حضرت فریدالدین شکر گنج کے حکم پر یہاں (منگھوپیر) تشریف لے آئے اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے‘۔
کراچی کا ابتدائی سروے کرنے والے Thomas Greer Carless نے 1838ء میں اپنی رپورٹ پیش کی، وہ رپورٹ نہ مجھے مل سکی اور نہ میں اس کا مطالعہ کرسکا ہوں۔ البتہ اس رپورٹ کے ایک حصے جس میں ’منگھوپیر‘ کا ذکر ہے وہ A.W. Hughes نے Sindh Gazetteer میں تحریر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’کارلیس انتہائی گہرائی سے منگھوپیر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کراچی کے نواح میں منگھو وادی گھومنے کی جگہ ہے۔ یہاں پر پانی کے بہت سارے چشمے ہیں۔ ہم لیاری ندی کا خشک بہاؤ پار کرکے اس وادی کے قریب پہنچے، یہ وادی 7، 8 سو فٹ کی بلند پہاڑیوں میں گھری ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک میدانی علاقے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ یہاں کھجور کے بہت سارے جھنڈ ہیں۔ یہاں کے گرم پانی کا درجہ حرارت 133 ڈگری فارن ہائیٹ کے قریب ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ، یہاں کے سارے چشمے سیہون شریف کے بزرگ لعل شہباز قلندر کی کرامت کی وجہ سے بہتے ہیں۔ میں نے وہاں ایک مگرمچھ دیکھا جس کا رنگ بالکل مٹی کے رنگ جیسا تھا، میں نے اس کو مٹی کا ڈھیر سمجھا تھا، مگر میرے ساتھ جو بلوچ تھے انہوں نے مجھے خبردار کیا کہ میں آگے نہ جاؤں۔ وہ 12 فٹ کا ایک لمبا طاقتور مگرمچھ تھا۔ مگر میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ پانی کے اس تالاب میں سے بچے اور عورتیں گزر رہی تھیں لیکن ان کو مگرمچھوں سے کوئی خوف نہیں تھا۔ یہاں کھجور کے علاوہ انجیر اور آم کے بھی درخت ہیں۔ یہاں جو پانی کا تالاب ہے جس میں مگرمچھ رہتے ہیں وہ اندازاً 150 گز لمبے اور 80 گز چوڑے ہوں گے۔ اس میں 200 کے قریب مگرمچھوں کی تو میں گنتی کرسکا۔ مجھے یہ دیکھنے میں اچھے نہیں لگے مگر میں ان کو خوراک کھلا کر دیکھنا چاہتا تھا۔ میرے کہنے پر جب بکرے کو کاٹا گیا اور بکرے کا سرخ خون پانی میں گرا تو سارے مگرمچھ اس طرف دوڑ پڑے لیکن جیسے ہی تالاب کے محافظ نے لکڑی کی چھڑی کو اٹھا کر اور آواز سے ان کو رکنے کا کہا کہ بکرا کاٹنے تک وہیں انتظار کریں تو یہ ایک جادو جیسا منظر تھا۔ وہ سارے مگرمچھ ساکت ہوگئے اور بکرے کا گوشت ملنے کا انتظار کرنے لگے‘۔
کارلیس چونکہ علم بحار و انہار کا ماہر تھا تو اس نے اس علاقے کو اس نظر سے دیکھا اور اس سے متعلق ایک تفصیلی تحریر موجود ہے۔ البتہ ’سندھ گزیٹیئر‘ (1876ء) کے مطابق ’اس علاقے میں جنگلی حیات انتہائی شاندار ہیں جن میں چیتے، بھیڑیے، لومڑ، گیدڑ، ایک کوتاہ قامت ریچھ کی قسم اور ہرن شامل ہیں۔ ایک زمانے میں یہاں گڈاپ وادی میں ایک جنگل تھا جو بہت عرصہ پہلے کراچی شہر کی ضرورت کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے ختم ہوچکا ہے‘۔
میں درگاہ کے شمال میں جس پہاڑی پر بیٹھا ہوں یہاں اب ہر طرف انسان نظر آتے ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب جنگلی حیات کی کوئی نسل یہاں بچی ہوگی کیونکہ وقت کے ساتھ زمین کا پانی استعمال کرنے سے بہت سارے چشمے خشک ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ سے معروضی حالات میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو 100 برس کچھ زیادہ نہیں ہوتے جو بہت کچھ تبدیل کردیں، مگر یہاں ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم نے 100 برس میں اس سارے منظرنامے سے ابلتے پانی کے چشمے، کھجور اور دوسرے درختوں کے جنگلوں کی ہریالی اور جنگلی حیات کی نسلوں کو کھرچ کر ختم کردیا ہے۔ یووال نواح ہراری نے کتنی شاندار بات تحریر کی ہے کہ 'انسان جہاں بھی جائے گا فطرت کو برباد کرکے رکھ دے گا۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے'۔
میں درگاہ کے آنگن میں آیا جہاں پیلو کا ایک درخت ہے اس کے نیچے وہ گنبد ہے جسے اب ہرا رنگ کردیا ہے کہ اسی گنبد میں بیٹھ کر درویش چلے کاٹتے تھے۔ گنبد کے ساتھ جنوب میں کچھ قدیم قبریں ہیں اور ہر درگاہ کی طرح یہاں بھی دیے جلتے ہیں مگر درگاہ کے اندر نہیں۔ درگاہ کے آنگن میں ان دیوں کی مخصوص کی ہوئی جگہ پر 2 دیے جل رہے تھے۔ درگاہ کے اندر حاجی حسن المعروف منگھوپیر کی آخری آرام گاہ ہے۔ چاروں طرف مرد اور عورتیں کھڑے ہیں کہ ہر کوئی اپنے درد کی دوا چاہتا ہے۔ اس چھٹکارے کی طلب ان کو یہاں کھینچ لاتی ہے۔
میں نے پیلو کے درخت کے پاس کھڑے وہاں کے قدیم رہنے والے غلام حیدر خاصخیلی سے بات کی تو یہ گفتگو بہت طویل ہوگئی۔ 70 برس کی عمر میں اس نے بھی یہاں بہت بدلاؤ دیکھے ہیں۔ وہ ترقی کو اچھا سمجھتا ہے مگر تیز گرمیوں کی ان ٹھنڈی شاموں کو بھی یاد کرتا ہے جب اتنا شور و غل نہیں تھا۔ درگاہ اور تالاب پر معتقدین آتے، کچھ واپس چلے جاتے کچھ رہ جاتے۔ جاڑے کے دنوں میں ’بابا گور‘ کے تکیے پر الاؤ جلتا اور وہ آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت کرتا۔ غلام حیدر کی باتوں سے ایک نئی کہانی نے اپنی موندی ہوئی آنکھیں کھولیں۔
’شیدی میلہ یہاں قدیم زمانے سے لگتا آیا ہے۔ اب کچھ برس سے یہاں کے حالات بہتر نہیں تھے اور پھر کورونا ہوا تو نہیں لگا‘، یہ بات غلام حیدر نے ایک شکوے کی سی کیفیت میں مجھ سے کہی۔
میں یہ بات سن کر کچھ پریشان ہوا کیونکہ جب بات ’شیدی‘ کی آتی ہے تو ان کی سندھ میں آمد کوئی اتنی پرانی نہیں ہے۔ مگر پھر جب بات ’بابا گور‘ کی آتی ہے تو ہمیں تھوڑا سوچنا پڑتا ہے۔ بابا گور جس کا مزار رتن پور گجرات میں ایک پہاڑی پر ہے وہاں بھی شیدیوں کا سالانہ میلہ لگتا ہے۔ ان کا اصلی نام حضرت شیخ نوبی مبارک تھا۔ ان کا کہا گیا ایک گیت وہاں کے شیدی گاتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ
’ہم پہلے افریقی تھے جو اتنا دُور یہاں پہنچے تھے،
میرا نام مبارک النوبی ہے،
میں نے جب ڈھول بجایا میرے سارے رشتے دار میرے پیچھے آئے،
آج فریقہ بہت دُور ہے، مگر ہمارے دلوں میں بستا ہے،
ہم یہاں سترہ پیڑھیوں سے ہیں،
مگر یہاں کے باسی بھی ہمارے متعلق زیادہ نہیں جانتے،
ہم اپنے اباواجداد کو کبھی نہیں بھول پائیں گے،
مگرمان کی تال سے ہم جیتے ہیں،
ہم شیدی ہیں۔‘
جب یہاں سالانہ شیدی میلہ ہوتا تھا تو یہاں بھی مگرمان کی تھاپ شیدی معتقدین کو اپنے سحر میں ایسے جکڑتی تھی کہ وہ حال کو بھول جاتے۔ محقق گل حسن کلمتی جو ان میلوں میں مسلسل کئی برسوں سے شامل ہوتے آئے ہیں، لکھتے ہیں کہ 'ان مگرمچھوں کے حوالے سے لگنے والے شیدی میلے کو لال شاہ کا میلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے مرکزی کردار اس گندے سے تالاب میں رہنے والے مگرمچھ ہیں۔ یہ میلہ ’آل پاکستان شیدی کمیونٹیز‘ کے زیرِ اہتمام لگتا ہے۔ اس ایک ہفتے تک چلنے والے میلے میں شیدیوں کے یہ 4 بڑے قبیلے شامل ہوتے ہیں:
۔ کھارادری (کراچی)
۔ لاسی
۔ حیدرآبادی
۔ بیلارا (لس والے)
ہر قبیلے کے لیے ’ٹیکا‘ لگانے کی رسم انتہائی اہم ہوتی ہے۔ (میں نے قبیلوں کے حوالے سے جب اقبال حیدر شیدی سے بات کی تو انہوں نے 4 قبیلوں کے نام کچھ اس طرح بتائے کہ حیدآباد مکان (کالی موری والے)، گڑ مکان والے (لیاری)، لاسی مکان والے (لیاری، لس بیلو)، جوناگڑھ مکان والے (منگھوپیر)۔
اس رسم کو مقامی زبان میں ’ٹکو‘ کہا جاتا ہے۔ ہر قبیلے کے لیے اس رسم کا ایک الگ دن ہوتا ہے۔ اس رسم کے موقعے پر کالا بکرا ذبح کیا جاتا ہے، مگرمان کی تھاپ پر ’مور‘ مگرمچھ کو تالاب سے باہر لایا جاتا ہے اور اپنے ساتھ لایا ہوا بکرے کا گوشت اس کے منہ میں رکھا جاتا ہے اور ساتھ میں لایا ہوا بکرے کا خون اور سندور اس کے سر پر لگایا جاتا ہے۔ اب اگر مگرمچھ نے گوشت کھا لیا تو سب ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور پھولوں کے ہار بھی مگرمچھ پر ڈالتے ہیں اور ناچتے ہیں۔ اگر اتفاق سے مگرمچھ نے گوشت نہیں کھایا تو سارے جلوس میں مایوسی پھیل جاتی ہے۔ جب اس مور مگرمچھ کی عمر پوری ہوجاتی ہے تو اسے دفن کردیا جاتا ہے اور اس کی جگہ بڑی عمر کا دوسرا مگرمچھ لے لیتا ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے یوں ہی چلا آرہا ہے۔
1839ء میں ایک انگریز نے یہ میلہ دیکھا تھا جس کا ذکر اس نے اپنی ڈائری میں کیا تھا۔ اسی برس Dry Leaves from Young Egypt کے مصنف E. B. Eastwiek بھی شمالی سندھ کا سفر مکمل کرکے حیدرآباد سے کراچی کے لیے کشتی پر روانہ ہوا۔ ٹھٹہ کے بعد وہ گجو، گھارو، پپری، لانڈھی سے ہوتا ہوا کراچی شہر پہنچا۔ اسے منگھوپیر والا یہ تالاب اور مگرمچھوں کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اس کی تحریر بھی اور دیگر تحریروں سے کچھ الگ نہیں ہے اس لیے یہاں بیان نہیں کرتے۔ مگر اس کا اسی جگہ کا بنایا ہوا اسکیچ دیکھنے جیسا ہے کہ یہاں سب کچھ کیسا شاندار، ہریالی سے بھرا اور پُرسکون تھا۔
رگاہ کی سیڑھیاں اتر کر آپ نیچے آئیں گے تو آپ کو چوکنڈی کے طرز کی خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی قبریں ملیں گی۔ گل حسن کلمتی صاحب کی تحقیق کے مطابق 'یہ سمہ دور کی قبریں ہیں یعنی یہ آج سے 5 صدیاں پہلے کی بنی ہوئیں ہیں'۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ جگہ کتنی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
میرے سامنے برٹش لائبریری میں پڑی ایک تصویر ہے۔ یہ تصویر 1900ء کی ہے جس میں اس زمانے کے لوگ اور یہ قبرستان ایک بہتر کیفیت میں موجود ہے اور اس مقام کی شان بڑھانے والے کھجور کے درختوں کا جھنڈ بھی ہے جو پس منظر میں نظر آرہا ہے۔ میری سمجھ میں بالکل بھی نہیں آرہا کہ اس شاندار تاریخی مقام کی بربادی پر میں کیا تحریر کروں کہ 100 برس میں ہم نے سب برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ کیسی ترقی ہے جو اپنی تاریخ کو مٹاتی اور اس پر سیمنٹ اور اینٹیں جماتی جاتی ہے؟
میں قبروں پر بنی ان شاندار پھول پتیوں کو دیکھتا رہا جو بڑی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ہوسکتا ہے آنے والے 15، 20 برسوں میں یہ بھی نہ رہیں۔ میں نیچے اترا تو وہاں باہر راستے پر پھولوں والے بیٹھے تھے، ساتھ ہی مگرمچھوں کے تالاب تک جانے کے لیے لوہے کا دروازہ بھی بنا ہوا تھا۔ دروازے کے اندر بازار بنا ہوا ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر بچوں کے کھلونے اور دوسری چیزیں پڑی ہیں۔ ساتھ میں پکوڑے بھی بن رہے ہیں۔
اس بازار سے شمال کی طرف ایک گلی جاتی ہے جہاں لوگ اس گندھک ملے پانی کے چشمے سے نہاتے ہیں تاکہ جلد کی بیماریوں سے نجات ملے۔ پھر اس بازار سے ایک باریک سی گلی اس تالاب کی طرف جاتی ہے جہاں مگرمچھ بند ہیں۔ بڑے مشکل دن ہیں ان مگرمچھوں پر، وہ زمانے کب گے گزر گئے جب وہ آزادی سے اپنے تالاب اور اس کے اردگرد بھاگتے پھرتے تھے۔ پھر دھیرے دھیرے زمانے بدلے تو ان کی آزادی کو نام نہاد ترقی نے نگل لیا۔ نہ کھجور کے پیڑ رہے نہ ہی املی کے پیڑوں کی گھنی چھاؤں۔ اب اس تالاب کے جنوبی حصے میں دیوی کے کچھ عجیب سے درخت ہیں جن کے نیچے چھاؤں بھی نہیں ہوتی اور دھوپ بھی نہیں ہوتی۔ ان درختوں کے نیچے کچھ مگرمچھ اپنے جسم کو خشک کر رہے ہوتے ہیں۔ تالاب کے گرد جالی نصب ہے جس سے لوگ ان کو دیکھتے ہیں اور وہ لوگوں کو اپنی ننھی مٹر کے دانے جتنی بے بس آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
ہم وہاں کے خلیفہ سجاد شاہ سے ملے۔ مگرمچھ اور کرامات کے متعلق بہت ساری باتیں ہوئیں۔ ہماری گزارش پر وہ سرخ ڈنڈی لیے اپنے آستانے سے نکلے اور مگرمچھوں کے تالاب کے کنارے پر گئے۔ ایک دو مگرمچھوں کو گوشت کھلایا اور واپس لوٹے۔ سیمنٹ کی بنی بینچوں پر کچھ عورتیں تھیں جو دُور سے آئی تھیں اور اپنے درد بیان کررہی تھیں کہ تمناؤں کا بیج جہاں بھی اُگے گا تکلیفیں اور درد تو ہوگا۔ کیونکہ تمناؤں کے درخت کی ڈالیوں پر ہی درد اور تکلیف کا میوہ اگتا ہے۔ درد باہر سے کبھی نہیں آتے، ہم ہی ان کو جنم دیتے ہیں اور وہ ہمیں ہی پریشان کرتے ہیں۔
اگر آپ تھوڑا دھیان دیں اور غور کریں تو اس منگھوپیر وادی کی کتھا جو 3300 قبل مسیح سے شروع ہوئی تھی اس کی ابتدا چاہے انسان کے ارتقا سے ہوئی ہو مگر اس کی کہانی حیات، درد اور موت کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ یہ وادی جس نے کمال دیکھا، اب زوال کے راستے کی مسافر ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ مگرمچھ اور ان قبرستانوں کے باقی رہ جانے والے آثار کچھ زیادہ جی سکیں گے۔ جس طرح ہم اور آپ آج سے 100 یا 50 برس پہلے کی تصاویر دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں۔ 50 برس کے بعد شاید یہ تالاب اور سکڑ جائے کہ انسانی بھوک پر کبھی زوال نہیں آتا۔
ترقی ہونی چاہیے اور ضرور ہونی چاہیے کہ یہ وقت کا چلتا پہیہ ہے مگر یہ بالکل بھی نہ ہو کہ اس پہیے کے چلنے کا کوئی راستہ متعین نہ ہو۔ کم سے کم ترقی کے پہیے کو قدیم آثار، جو ہمارا اثاثہ ہیں ان کے اوپر سے نہیں گزرنا چاہیے۔ بس کچھ پل سوچیے اور ترقی
کا ایک مثبت راستہ متعین کیجیے کہ اس میں ہم سب کا بھلا ہے۔
تحریر: شیخ
Comments
Post a Comment